Monday, May 27, 2019

Sayaa-e-Deewar Bhi Nahi (Qaisra Hayat) / سایہ دیوار بھی نہیں از قیصرہ حیات

Sayaa-e-Deewar Bhi Nahi (Qaisra Hayat)
سایہ دیوار بھی نہیں از قیصرہ حیات

دیباچہ
یہ ناول پاکیزہ ڈائجسٹ میں شائع ہونے والا میرا پہلا ناول ہے جو عام روایتی ناولوں سے قدرے مختلف ہے کیونکہ اس میں کوئی بھی کردار مخصوص انداز میں ہیرو یا ہیروئن بن کر نمودار نہیں ہوا بلکہ یہ معاشرے کے ان چلتے پھرتے کرداروں کی کہانی ہے، جو اپنی اپنی سوچ کے مطابق زندگیاں گزارتے ہیں اور دنیا کی اسٹیج خالی کر کے چلے جاتے ہیں، جو سوچتے تو بہت کچھ ہیں مگر اس کے مطابق عمل نہیں کر سکتے۔ جو احساسات و جذبات تو رکھتے ہیں مگر بروقت ان کا اظہار نہیں کر پاتے۔ ایسے کردار ہمیں ہر معاشرے اور ہر طبقے میں ملتے ہیں جنھیں ہم بھی نظرانداز کر دیتے ہیں اور بعض اوقات نظر انداز کرنے کے باوجود بھی وہ ذہن سے محو نہیں ہو پاتے کیونکہ قدرت نے کہیں نہ کہیں ان میں کوئی انفرادیت ضرور رکھی ہوتی ہے اور یہ انفرادیت ہر کردار میں نہیں بلکہ بہت سے ایک جیسے کرداروں میں سے صرف چند ایک میں ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بھلائے نہیں جاسکتے۔
بقول شیکسپیئر یہ دنیا ایک اسٹیج ہے جہاں ہر انسان اپنا کردار ادا کر کے چلا جاتا ہے۔ اب یہ قدرت کی عطا ہے کہ وہ ہم انسانوں کو اس دنیا کا نظام چلانے کے لیے کیا کیا رول (کردار) دیتی ہے۔ ہمیں اس کردار کو سمجھ کر بخوبی نبھانے کے فن سے کس حد تک آشنا کرتی ہے۔ ہمیں کتنی صلاحیتوں سے نوازتی ہے۔ ہمارے فہم و ادراک کو کتنا متحرک اور فعال بناتی ہے۔ زمانے کی تلخیوں اور سچی حقیقتوں کو سمجھنے کا کتنا شعور دیتی ہے۔ ہماری سوچ کس حد تک پریکٹیکل (عملی) بناتی ہے یا محض تخیلاتی۔ ہمارے لیے ہمارا ماحول کسی حد تک سازگار ہے۔ یہ سب عوامل مل کر نہ صرف ہمارا کردار تشکیل دیتے ہیں بلکہ دنیا کی اسٹیج پر ہمارے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
یوں معاشرے کے ان تمام کرداروں کی درجہ بندی کریں تو سب سے پہلے ہمیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

Sunday, May 26, 2019

Naan'Baai Ki Beti (Aneeza Sayyed) / نان بائی کی بیٹی از عنیزہ سید

Naan'Baai Ki Beti (Aneeza Sayyed)
نان بائی کی بیٹی از عنیزہ سید

پیش لفظ
مجھے کہانیاں لکھتے ستائیس سال ہو چلے، اور ان ستائیس سالوں کے طویل سفر میں، میں نے جو کہانیاں، افسانے، ناولٹ اور ناول لکھے ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں ۔ لکھنے کے معاملے میں، مَیں انسپائریشن کی شدت سے قائل ہوں۔ جب تک کوئی موضوع ، کوئی واقعہ شخصیت یا منظر مجھے اس حد تک انسپائر نہ کرے کہ اس پر قلم اٹھانے کو میری روح بے چین ہو جائے میں کہانی نہیں لکھ سکتی۔ موضوعات کا تنوع ، وہ دوسری چیز ہے جو کہانی لکھنے کے معاملے میں میری دوسری ترجیح ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف پہلو ہی کہانی کاری کی تاریخ میں کہانی کاری کا باعث بنتے رہے مگر اس تاریخ کے آغاز سے اب تک کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ قلم کار کے قلم کا موضوع کو "ٹریٹ" کرنے کا طریقہ کار ہی وہ فرق ہے جو ایک کو دوسرے سے منفرد کرتا ہے۔ گویا موضوع تو وہ ہی گنے چنے مگر ان کا ٹریٹمنٹ مختلف رہا۔
یہاں موضوعات کے تنوع سے میری مراد میری ایک کہانی کے موضوع کا دوسری کے موضوع سے منفرد ہونا ہے۔ میری ہمیشہ ہی شعوری کوشش رہی ہے کہ میری ہرنئی آنے والی کہانی کا موضوع پچھلی سے مختلف ہو۔ ہاں ایک مخصوص طرزفکر، ہر کہانی کار کے لاشعور میں ہمیشہ چھپا بیٹھا رہتا ہے یہ ہی طرز فکر اس کی ہر کہانی کے پس منظر اور پیش منظر پر حاوی رہتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی کے مستقل قاری کو اگر مختلف مصنفین کی کہانیوں کا مجموعہ تھما دیا جائے تو وہ یقینا اس مجموعے کے صفے الٹتے پلٹتے ہوئے ہر کہانی کی چند سطریں پڑھ کر ہی جان لے گا کہ وہ کس کی کہانی ہوسکتی ہے۔ یہی طرز فکر، کہانی کار کی پہچان ہوتا ہے۔ یہ ہی اس کی حیثیت بھی ہوتا ہے اور اس کا میدان بھی۔ میری کہانیوں کے مستقل قاری کو میری کہانی پر تجسس، تلاش اور سفر کا رنگ نمایاں نظر آتا ہوگا۔ یہ ہی میرا طرزِ فکر ہے۔ یہی میری پہچان، حیثیت اور میدان بھی ہے۔
زیر نظر مجموعه "نان بائی کی بیٹی" میں میرے چارطویل ناولٹ شامل ہیں۔ ان میں سے تین ناولٹ میرے قلمی سفر کے ابتدائی اور وسطی دور میں لکھے گئے اور ایک ناولٹ نان بائی کی بیٹی 2013ء میں، مَیں نے لکھا۔ ایک لحاظ سے یہ مجموعہ میرے علمی سفر کے مختلف ادوار کی عکاسی بھی کرتا ہے۔


 

Friday, May 24, 2019

Marg-e-Barg (Tanzeela Riaz) / مرگِ برگ از تنزیلہ ریاض

Marg-e-Barg (Tanzeela Riaz)
مرگِ برگ از تنزیلہ ریاض

فہرست
مرگِ برگ
دشتِ ظلمت میں
مُحبت رنگ لاتی ہے
عشق گزیدہ
مرگِ برگ
ڈرامہ ختم ہوتے ہی پورا ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا تھا۔ پچھلی نشستوں کے عین اوپر نصب بڑے بڑے بلب روشن ہونا شروع ہوئے ۔ تاریکی بہت سرعت سے روشنی کا لبادہ اوڑھ کر اجالے کا روپ دھارنے لگی تھی۔ لمحہ بھر میں تمام ہال روشنی کی تیز پھوار سے بھیگ چکا تھا۔ اسٹیج پر لگا بھاری سرخ پرده تیزی سے برابر ہونے لگا۔ تالیوں کی گونج دھیرے دھیرے دم توڑنے لگی۔ لوگ ایک کے بعد ایک گرتے پڑتے، ہنستے گاتے ایک دوسرے کو دھکا دیتے اس دروازے کی سمت بڑھنے لگے، جہاں Exit لکھا تھا۔ ہال آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا اور ایسے میں دو بھوری بے حِس آنکھیں ابھی بھی ٹکٹکی باندھے سامنے کی جانب دیکھنے میں مگن تھیں۔ ان آنکھوں میں نیلگوں شعلوں کی لپک دور سے بھی محسوس کی جاسکتی تھی۔
روشنیاں جل چکی تھیں۔ ہال خالی ہو چکا تھا۔ پردہ برابر ہو چکا تھا اور ڈرامہ ختم ہو چکا تھا۔
یہ کہانی وہاں سے شروع ہوئی جہاں ڈرامہ ختم ہوا تھا۔

 

Tuesday, May 21, 2019

Muhabbat Rabt Hai (Ushna Kausar Sardar) / محبت ربط ہے از عُشنا کوثر سردار

Muhabbat Rabt Hai (Ushna Kausar Sardar)
محبت ربط ہے از عُشنا کوثر سردار

آئینہ
پتیاں لکھاں شام نوں
دل لوچے ماہی یار نوں
میں محبت اور تم
محبت ربط ہے
کیکٹس کا پھول
تارا تارا اُجلا
کرن کوئی آرزو کی
میں تیرا خالی کمرہ ہوں

پتیاں لکھاں شام نوں
کھڑکی سے لگی
وہ بادل تکتی رہتی ہے
 اس کے دل پرگرتی ہیں
 وہ آنکھیں بند کر کے
 اپنے اندر کی موسلا دھار بارش میں بھیگتی رہتی ہے!

کتنی ہی دیر کھڑا، وہ بہت خاموشی کے ساتھ علما بخاری کودیکھتا رہا تھا۔ اس کی مخروطی انگلیاں بہت تیزی کے ساتھ کی بورڈ پر متحرک تھیں ۔ اس کی گہری سرمائی آنکھیں مونیٹر کی اسکرین پر تھیں۔ کتنی آس تھی ان آنکھوں میں اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر ایک شدید ترین پیاس ایک تھل سا پھیلا ہوا تھا یہاں سے وہاں تک بنجر اور ویراں تھل۔ پیاس سے بھرا ہوا صحرا۔
وہ جدید ترین دور کی لیلیٰ تھی، جبھی تو بھٹکتی پھر رہی تھی، میلوں تک پھیلے ہوئے ان صحراؤں میں۔
بلو جینز پر ڈھیلی ڈھالی سی بلیک شرٹ، شولڈر کٹ بالوں کو بہت رف سے انداز میں کلپ میں مقید کیے نکھرا ستھرا بے داغ چہرہ میک اپ سے بالکل بے نیاز آنکھوں میں ایک آس ایک امید کی روشنی لیے وہ اس گھڑی اس سے قطعی طور پر بے نیازتھی۔
اس کی موجودگی سے بے پروا اسے سرے سے جیسے احساس ہی نہ تھا کہ اس کے علاوہ کمرے میں کوئی موجود بھی ہے اس درجہ بے خبرتھی وہ کسی سے یا پھر خود میں اس قدرمگن تھی، کوئی کس قدر خوش نصیب تھا کہ میلوں کے فاصلے پر بیٹھے ہونے کے باوجود کس درجہ مضبوطی سے اسے باندھے ہوئے تھا اپنے ساتھ اس کے خیالوں کو اس کی سوچوں کو اس کے روز و شب کو اس کے احساسات و جذبات کو اور دل کو کس درجہ اختیار تھا اسے کسی کی سوچوں پر، کسی کے دل پر، دماغ پر، جذبات پر، وہ ناپید وجود غیر موجود انسان۔
وہ یہاں نہ ہو کر بھی جیسے یہیں پر تھا۔ اپنے مکمل احساس سمیت، وہ اگر کبھی جو سوچتا تھا تو اسے بے حد رشک آتا تھا اس شخص پر،عامر رضا ایک عام سا معمولی سا شخص ہوتے ہوئے بھی کسی درجہ خاص تھا اس لڑکی کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Saturday, May 18, 2019

Haalim; Complete (Nemrah Ahmed) / حالِم؛ از نمرہ احمد

Haalim; Complete (Nemrah Ahmed)
حالِم؛ از نمرہ احمد

Download Link
حالِم
باب نمبر

گدلے پانیوں کا سنگم
1
گھائل غزال
2
شکار باز
3
میراثِ پِدرِمَن
4
تین خزینوں کا مسکن
5
بازگشتِ دختر
6
تاشہ پَسونا
7
ہم قیدی وقت کے
8
جہاں ملتے ہیں تین چاند!
9
صنم تراش
10
وقت کے اُس پار
11
سُلطان ساز
12
وقت کے تین سوال
13
ملکہ بد
14
چناؤ
15
دوری نگارہ ملایو (ملایا کا کانٹا)
16
سات راتیں، چھے دن، پایچ خطوط
17
چور اور جاسوس
18
ساکوراہانامی
19
شہزادی کی آخری مانگ
20
اتوار۔ بائیس جنوری۔ جونکر اسٹریٹ۔ 
ملاکہ
21
 وقت مہربان
 22
 سفید گھوڑے والی شہزادی
آخری قسط
 23
مکمل ناول
Complete Haalim Novel


Haalim; Episode 21 (Nemrah Ahmed) / حالِم؛ اکیسواں باب از نمرہ احمد

Haalim; Episode 21 (Nemrah Ahmed)
حالِم؛ اکیسواں باب از نمرہ احمد

اکیسواں باب:
" اتوار۔ بائیس جنوری ۔ جونکر اسٹریٹ ملا کہ ۔ "
اتوارکی شام تھی۔
 بائیس جنوری کی تاریخ تھی۔
 اکیسویں صدی کی جونکر اسٹریٹ سامنے تھی۔
 اور یہ ملائیشیا کا شہر ملا کہ تھا۔
اس نے اپنے سامنے پھیلی جونکر اسٹریٹ پر چلتے لوگوں کو دیکھا تو یاد آیا کہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار وہ دن تھے جب اس اسٹریٹ کو پیدل چلنے والوں کی گزرگاہ بنایا جاتا تھا۔ سڑک کے کنارے اسٹالز اور بنچ لگ جاتے تھے۔ اور لوگ خریداری کرتے ہوئے کھاتے پیتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے تھے۔
قدیم ملا کہ میں ایک ماہ گزارنے کے باعث اسے اس شور ہنگامے اور رونق کی عادت نہیں رہی تھی۔ ہر شے مختلف تھی۔ صرف تاریخ اور دن وہی تھا۔ اتوار با تیس جنوری کو ہ تینوں وقت میں پیچھے گئے تھے۔ پھر اسی تاریخ اور اسی دن میں اس کی "واپسی" ہوئی تھی۔ مگر یہ واپسی ویسی نہیں تھی جیسی اس نے چاہی تھی۔ یہ واپسی بہت سفاک تھی اور اس کا دل توڑگئی تھی۔ چند گھنٹے پہلے پیش آنے والے حالات کا صد ابھی تک اس کے حواسوں پر طاری تھا۔ اتنے شور میں تنہا بنچ پر بیٹھے اسے معلوم تھا کہ اب زندگی کبھی ویسی نہیں رہے گی ۔ وقت نے اسے۔۔۔۔۔۔ بلکہ ان تینوں کو بہت سخت سزا دے ڈالی تھی۔
اب وہ کیا کرے؟ ساری محنت یہاں واپس آنے کے لیے کی تھی۔ اب یہاں سے وہ کہاں جائے؟
اس نے آنکھیں بند کیں تو پل بھر کے لیے ساری دنیا اندھیر ہوگئی۔ دھیرے دھیرے اس کا ذہن قدیم ملا کہ کی طرف جانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

Titliyaan, Phool aur Khushboo (Rahat Jabeen) / تتلیاں، پھول اور خوشبو از راحت جبیں

Titliyaan, Phool aur Khushboo (Rahat Jabeen)
تتلیاں، پھول اور خوشبو از راحت جبیں

تتلیاں، پھول اور خوشبو
 صاف ستھرے تازہ لپے لپائے وسیع وعریض صحن میں دھوپ تیزی سے پھیلی۔ اگرچہ ابھی صبح کاہی وقت تھا۔۔۔ مگر سورج سرپر آکھڑا ہوا۔
مسرت نہاکر نکلی اور لمبے بالوں کو تولیے میں لپیٹے اپنے کمرے میں گھس گئی۔ ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا اور جنت بی بی باہر نکلیں۔ دبلی پتلی، دھان پان ساوجود، صاف رنگت، ہر حرکت میں تیزی و پھرتیلاپن نمایاں تھا۔ انہوں نے دھوپ میں پڑی چارپائی گھسیٹ کر دیوار کے ساتھ کی۔ اس پر پرانی دھلی ہوئی چادر بچھائی، پھر کمرے کی طرف منہ کر کے آواز دی۔
"ستی او۔۔۔ ستی۔۔۔ ذرا مجھے پرات تو پکڑادے"
انہوں نے کونے میں پڑا ساگ کا گٹھڑ کھول کر چارپائی پر پھیلایا۔ بہت آوازیں دینے پر بھی مسرت ٹس سے مس نہ ہوئی تو ان کو تاؤ آگیا۔
لگی ہوگی سولہ سنگھار کرنے۔ ماں تو بکواس کرتی ہے۔ وہ غصے سے بڑبڑاتی اٹھیں اور خود ہی کچن سے مطلوبہ اشیاء لے آئیں۔
چاند سا مکھڑا۔۔۔ اترا ہے دل میں۔۔۔
گنگناتے ہوئے مسرت نے آخری بار آئینے میں اپنا جائزہ لیا اور باہرنکل آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Friday, May 17, 2019

Saanson Ki Maala Pay (Iqra Sagheer Ahmad) / سانسوں کی مالا پہ از اقراء صغیر احمد

Saanson Ki Maala Pay (Iqra Sagheer Ahmad)
سانسوں کی مالا پہ از اقراء صغیر احمد

نظر کے سامنے ایک راستہ ضروری ہے
بھٹکتے رہنے کا بھی سلسلہ ضروری ہے
تعلقات کے نام معتبر حوالوں میں
تمام عمر کا اک رابطہ ضروری ہے
اس کا دل خوف سے بری طرح دھڑ ک اٹھا تھا۔
مائی گاڈ! یہ میں کہاں آ گئی؟ لائٹ بھی چلی گئی ۔ اس نے بدحواسی سے ادھر ادھر دیکھا جہاں گہرا اندھیرا لوڈ شیڈنگ کے باعث چھا گیا تھا اور جو رخسار، رابیگار رخشی وغیرہ کے پاس سے اٹھ کر باہر کی طرف جارہی تھی معا راستوں سے واقفیت نہ ہونے کے باعث اس حصے میں آ گئی تھی جس کی خوف ناک کہانیاں آج ہی را بیکا نے سنائی تھیں اور جن کو سن کر وہ دل میں تہیہ کر چکی تھی کہ کبھی غلطی سے بھی وہ انیکسی کی طرف نہیں جائے گی۔۔۔۔۔ اور اسے قسمت کا مذاق کہیں یا تقدیر کی ستم ظریفی وہ اندھیرے کے باعث انیکسی کے اردگرد پھیلے جھاڑ جھنکار بنے اجڑے لان میں کھڑی تھی۔
چند قدم کے فاصلے پر کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا مگر گہرے اندھیرے کی وجہ سے کچھ نمایاں نہ تھا ایک خاموشی تھی جو کسی کے نہ ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔ وہ چند لمحے ساکت کھڑی اس کی غیر موجودگی کی سن گن لیتی رہی اور یقین ہونے کے بعد دبے دبے قدموں سے آگے بڑھتی تھی اور تیسرے قدم پر ہی کسی شے سے الجھ کر گری تھی۔ بے اختیار چیخ اس کے حلق سے برآمد ہو کر خاموشی کو چیرتی چلی گئی۔
"کون ہے...؟" مردانہ بھاری آواز کمرے کے کسی خفیہ حصے سے برآمد ہوئی تھی۔ وہ جو بے اوسان گری تھی کسی نوکیلے پتھر کی چوٹ سے تڑپ اٹھی اندر سے برآمد ہونے والی سردمہروسپاٹ آواز اس کے خوف کو بڑھانے کے لیے کافی تھی۔ اندر سے قدموں کی آہٹیں ابھرنے لگی، ساتھ ہی اندرونی کسی دروازے کی چڑچڑاہٹ کی واضح آواز آئی تھی۔ وہ ساری طاقت بمشکل یکجا کر کے اٹھ کھڑی ہوئی، دل کی دھڑکنیں مارے دہشت کے بپھری ہوئی تھیں اور سماعتوں میں کچھ دیر قبل کی باتیں گونج رہی تھی۔
"ہماری یہ باتیں ہمیشہ یادرکھنا ڈیئر! کبھی بھول کر بھی انیکسی میں نہ جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"